یہ جسم کا ہے نگر بے صدا کی بستی ہے
قدم قدم پہ یہاں اک بلا کی بستی ہے
بس ایک دھوپ ہی چبھتی ہے سر سے تلووں تک
پتہ چلا کہ خطِ استوا کی بستی ہے
ہر ایک شخص ہے تنہائیاں لپیٹے ہوئے
اداس نسل کی صورت خدا کی بستی ہے
یہ کون شعلہ بدن اس طرف سے گزرا ہے
بہت ہی گرم ابھی تک ہوا کی بستی ہے
دیوانو! سیکھ لو شائستگئ بزمِ وفا
اب اس کے بعد مِرے دلربا کی بستی ہے
یہ معجزہ ہے کہ پتھر کی چوٹ کھا کر بھی
بزرگ ہونٹوں پہ اب تک دعا کی بستی ہے
ملے حیات تو انور! یہ پوچھنا اس سے
کہ اس کے کاندھے پہ کیونکر قضا کی بستی ہے
محبوب انور
No comments:
Post a Comment