Friday, 25 July 2025

یہ جسم کا ہے نگر بے صدا کی بستی ہے

 یہ جسم کا ہے نگر بے صدا کی بستی ہے

قدم قدم پہ یہاں اک بلا کی بستی ہے

بس ایک دھوپ ہی چبھتی ہے سر سے تلووں تک

پتہ چلا کہ خطِ استوا کی بستی ہے

ہر ایک شخص ہے تنہائیاں لپیٹے ہوئے

اداس نسل کی صورت خدا کی بستی ہے

یہ کون شعلہ بدن اس طرف سے گزرا ہے

بہت ہی گرم ابھی تک ہوا کی بستی ہے

دیوانو! سیکھ لو شائستگئ بزمِ وفا

اب اس کے بعد مِرے دلربا کی بستی ہے

یہ معجزہ ہے کہ پتھر کی چوٹ کھا کر بھی

بزرگ ہونٹوں پہ اب تک دعا کی بستی ہے

ملے حیات تو انور! یہ پوچھنا اس سے

کہ اس کے کاندھے پہ کیونکر قضا کی بستی ہے


محبوب انور

No comments:

Post a Comment