انہیں زمینی خداؤں کے زیر دست ہوں میں
میں جانتا ہی نہیں تھا کہ کتنا پست ہوں میں
پئے شراب بھلا شیخ سے الجھنا کیا
خدا پرست ہے وہ اور بتاں پرست ہوں میں
کسی کی مست نگاہوں سے مست رہتا ہوں
زمانہ مجھ کو سمجھتا ہے بادہ مست ہوں میں
جہان بھر کے غموں کا ٹھکانہ رکھتا ہوں
کشادہ دل ہے مرا گرچہ تنگ دست ہوں میں
میں اپنے ہاتھوں میں سر اپنا لے کے پھرتا ہوں
کہ سرکشوں کے قبیلے کا سر پرست ہوں میں
کہ مجھ کو یوں تو کوئی بھی ہرا نہیں سکتا
پر اہل دل کے لیے قابل شکست ہوں میں
سلیم عباس قادر
No comments:
Post a Comment