جب بھی ساغر لہو کے اچھالے گئے
کر کے رنگیں زمیں کو جیالے گئے
غم یہ ان کے نہ ہم سے سنبھالے گئے
کر کے سب کچھ انہیں کے حوالے گئے
رخ جوانی میں دیتا ہے یونہی تپک
چاند ڈوبا تو سمجھو یہ ہالے گئے
بوئے گل کی بھی قیمت مقرر ہوئی
تفرقے اہلِ گلشن میں ڈالے گئے
میں تو مقتول تھا اس لیے چپ رہا
لوگ قاتل کو میرے بچا لے گئے
پر شکستہ قفس میں پرندہ رہا
لوگ بکھرے پروں کو اٹھا لے گئے
بے گنہ بن کے نکلے ہیں عارف وہی
وہ جو چہروں پہ قاتل لکھا لے گئے
جلال الدین عارف
No comments:
Post a Comment