Wednesday, 23 July 2025

جب بھی ساغر لہو کے اچھالے گئے

 جب بھی ساغر لہو کے اچھالے گئے

کر کے رنگیں زمیں کو جیالے گئے

غم یہ ان کے نہ ہم سے سنبھالے گئے

کر کے سب کچھ انہیں کے حوالے گئے

رخ جوانی میں دیتا ہے یونہی تپک

چاند ڈوبا تو سمجھو یہ ہالے گئے

بوئے گل کی بھی قیمت مقرر ہوئی

تفرقے اہلِ گلشن میں ڈالے گئے

میں تو مقتول تھا اس لیے چپ رہا

لوگ قاتل کو میرے بچا لے گئے

پر شکستہ قفس میں پرندہ رہا

لوگ بکھرے پروں کو اٹھا لے گئے

بے گنہ بن کے نکلے ہیں عارف وہی

وہ جو چہروں پہ قاتل لکھا لے گئے


جلال الدین عارف

No comments:

Post a Comment