فکر دوراں میں نہ ہستی کو مٹاتے یارو
بزم دنیا میں مزے کچھ تو اٹھاتے یارو
مشکلیں ایسی نہیں تھیں کہ نہ آ سکتے تم
وعدہ آنے کا کیا تھا تو نبھاتے یارو
کار دنیا سے یہ مانا کہ پریشاں ہو بہت
ہم سے ملنے کے بہانے بھی بناتے یارو
دوری ہو جاتی ہے اکثر یوں ہی انجانے میں
دور رہ کر مِرا یوں دل نہ دکھاتے یارو
جیسے آتے تھے کبھی آ کے مِری دنیا میں
میری اجڑی ہوئی بستی کو بساتے یارو
کس کو پروا ہے ملے کون کہاں کب کس سے
خوف دنیا سے نہ یوں خود کو ڈراتے یارو
پھر سے آغاز محبت نہیں آساں اتنا
اپنی دیرینہ محبت کو نبھاتے یارو
پاس آتے مرے اک بار بصد ناز و ادا
اک جھلک اپنی مجھے آ کے دکھاتے یارو
جعفر امیر
No comments:
Post a Comment