ہوائے تند کے جھونکے کو آزماؤں گا
میں اک دیے سے ہزاروں دیے جلاؤں گا
میں شہر شہر صدا پر صدا اٹھاؤں گا
گلیم پوش غزل ہوں غزل سناؤں گا
یہ قسط قسط تبسم سلگتے ہونٹوں پر
سجا کے اب کے بھی میں قتل گاہ جاؤں گا
اسیر گنبد تنہائی اتنا یاد رکھو
میں بازگشت نہیں ہوں کہ لوٹ آؤں گا
میں دھوپ دھوپ چلوں گا یہ دوسروں کے لئے
سڑک کے دونوں طرف پیڑ ہی لگاؤں گا
بہت حقیر ہوں لیکن اندھیری راتوں میں
میں جگنوؤں کی طرح روز جگمگاؤں گا
یہ کرب کرب کہانی یہ دار دار سفر
میں اب کے لوٹ کے آؤں تو پھر سناؤں گا
مجھے خبر ہے کہ ہیں سانپ ان سوراخوں میں
مگر دوبارہ میں ان سے ڈسا نہ جاؤں گا
میں لمحہ لمحہ سزائیں تو کاٹ لوں گا مگر
حصار ارض سخن سے نکل نہ پاؤں گا
محبوب انور
No comments:
Post a Comment