Tuesday, 22 July 2025

ہوائے تند کے جھونکے کو آزماؤں گا

 ہوائے تند کے جھونکے کو آزماؤں گا

میں اک دیے سے ہزاروں دیے جلاؤں گا

میں شہر شہر صدا پر صدا اٹھاؤں گا

گلیم پوش غزل ہوں غزل سناؤں گا

یہ قسط قسط تبسم سلگتے ہونٹوں پر

سجا کے اب کے بھی میں قتل گاہ جاؤں گا

اسیر گنبد تنہائی اتنا یاد رکھو

میں بازگشت نہیں ہوں کہ لوٹ آؤں گا

میں دھوپ دھوپ چلوں گا یہ دوسروں کے لئے

سڑک کے دونوں طرف پیڑ ہی لگاؤں گا

بہت حقیر ہوں لیکن اندھیری راتوں میں

میں جگنوؤں کی طرح روز جگمگاؤں گا

یہ کرب کرب کہانی یہ دار دار سفر

میں اب کے لوٹ کے آؤں تو پھر سناؤں گا

مجھے خبر ہے کہ ہیں سانپ ان سوراخوں میں

مگر دوبارہ میں ان سے ڈسا نہ جاؤں گا

میں لمحہ لمحہ سزائیں تو کاٹ لوں گا مگر

حصار ارض سخن سے نکل نہ پاؤں گا


محبوب انور

No comments:

Post a Comment