غموں کے بار بہت کوئی غمگسار نہیں
چراغِ زیست پہ اب کوئی اعتبار نہیں
غموں نے اب ہمیں تنہائیوں میں گھیر لیا
خزاں کی رُت ہے میرے دل میں اب بہار نہیں
اگر میں چاہوں بھی تو ترک عشق کیسے کروں
کہ اپنے دل پہ بھی اب مجھ کو اختیار نہیں
یہ میرے عشق و محبت کی انتہا دیکھے
وہ ہے تو سامنے لیکن مجھے قرار نہیں
اگر میں پاوُں تمھیں مے کی مجھ کو کیا حاجت
میں تیرے ہجر میں پیتا ہوں بادہ خوار نہیں
میں رفتہ رفتہ اجل کے قریب آتا ہوں
مریضِ عشق ہوں پہلو میں میرا یار نہیں
پیامِ عشق ہو اور ساتھ خوش بیانی ہو
سلیم جیسے سخنور بھی بے شمار نہیں
سلیم عباس قادر
No comments:
Post a Comment