ہماری ذات کی تعمیر ہونے والی ہے
ہمارے قتل کی تفسیر ہونے والی ہے
بچھا کے بیٹھا ہے ہر آدمی وجود اپنا
امیر شہر کی تقریر ہونے والی ہے
دیا جلانے کا فرمان آ گیا پھر سے
پھر ایک رات کی تنویر ہونے والی ہے
مرا ضمیر انا پر اتر گیا جس دن
ہر ایک شخص کی تحقیر ہونے والی ہے
ہمارے خواب کی تعبیر ہو نہ ہو لیکن
کسی کی آنکھ کی تعبیر ہونے والی ہے
پہنچ گئی ہے کمال شباب کو اب وہ
کسی کی زیست کی تقدیر ہونے والی ہے
ہمارے ملک کے رہبر تمہاری نا سمجھی
وطن کے پاؤں کی زنجیر ہونے والی ہے
تری غزل پہ اے تسنیم لوگ کہتے ہیں
تمہاری ذات کی تشہیر ہونے والی ہے
کوثر تسنیم سپولی
No comments:
Post a Comment