Sunday, 27 July 2025

پردیس میں گھر اپنا بسایا نہیں جاتا

 اب خون جگر اور بہایا نہیں جاتا

بھیگی ہوئی آنکھوں کو سکھایا نہیں جاتا

نکلے جو وطن سے تو بھٹکتے ہی رہے ہم

پردیس میں گھر اپنا بسایا نہیں جاتا

ہے آگ مِرے دل میں محبت کی فروزاں

بھڑکے ہوئے شعلے کو بُجھایا نہیں جاتا

امواجِ حوادث ہیں مُصر میری فنا پر

منجدھار میں کشتی کو ڈوبایا نہیں جاتا

رکھنا ہے امیر عزتِ فقرا کا بھرم بھی

کشکولِ طلب آگے بڑھایا نہیں جاتا


جعفر امیر

No comments:

Post a Comment