اب خون جگر اور بہایا نہیں جاتا
بھیگی ہوئی آنکھوں کو سکھایا نہیں جاتا
نکلے جو وطن سے تو بھٹکتے ہی رہے ہم
پردیس میں گھر اپنا بسایا نہیں جاتا
ہے آگ مِرے دل میں محبت کی فروزاں
بھڑکے ہوئے شعلے کو بُجھایا نہیں جاتا
امواجِ حوادث ہیں مُصر میری فنا پر
منجدھار میں کشتی کو ڈوبایا نہیں جاتا
رکھنا ہے امیر عزتِ فقرا کا بھرم بھی
کشکولِ طلب آگے بڑھایا نہیں جاتا
جعفر امیر
No comments:
Post a Comment