بے تیشہ ہے اور کوہِ ندا کاٹ رہا ہے
یوں اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے
پانی پہ بناتا ہے وہ لاٹھی سے لکیریں
خنجر سے ہر اک سمت ہوا کاٹ رہا ہے
حاسد ہے وہ اتنا کہ مِری راہگزر پر
پھیلی ہوئی ہر شاخِ دعا کاٹ رہا ہے
سورج کے محلے میں وہ تاریک صفت شخص
دانتوں سے اجالوں کی رِدا کاٹ رہا ہے
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ اس دور میں انور
تاریکی جو بوتا ہے ضیاء کاٹ رہا ہے
محبوب انور
No comments:
Post a Comment