دریدہ دل کسی دیوار سے نکلے ہوئے ہیں
پرانے لوگ ہیں اور غار سے نکلے ہوئے ہیں
تمہاری جستجو میں خود فریبی اوڑھ کر ہم
سبھی کچھ چھوڑ کے گھر بار سے نکلے ہوئے ہیں
اور اب تم کو کسی دن آزمائیں گے، بتا دیں
ہیں شہزادے مگر دربار سے نکلے ہوئے ہیں
مذمت کر رہی ہے آنکھ اور سمجھا رہی ہے
مگر آنسو ترے انکار سے نکلے ہوئے ہیں
وہ آنکھیں جو ہمارے خواب میں آتیں ہیں اکثر
ہم ان کو دیکھنے منجدھار سے نکلے ہوئے ہیں
ہمارا ضبط بھی اب منتشر ہونے لگا ہے
ہمارے حوصلے بیمار سے نکلے ہوئے ہیں
ہمیں شہزاد اپنے آپ سے گھن آ رہی ہے
کہانی ہو کے ہم کردار سے نکلے ہوئے ہیں
شہزاد مرزا
No comments:
Post a Comment