Monday, 28 July 2025

دریدہ دل کسی دیوار سے نکلے ہوئے ہیں

 دریدہ دل کسی دیوار سے نکلے ہوئے ہیں

پرانے لوگ ہیں اور غار سے نکلے ہوئے ہیں

تمہاری جستجو میں خود فریبی اوڑھ کر ہم

سبھی کچھ چھوڑ کے گھر بار سے نکلے ہوئے ہیں

اور اب تم کو کسی دن آزمائیں گے، بتا دیں

ہیں شہزادے مگر دربار سے نکلے ہوئے ہیں

مذمت کر رہی ہے آنکھ اور سمجھا رہی ہے

مگر آنسو ترے انکار سے نکلے ہوئے ہیں

وہ آنکھیں جو ہمارے خواب میں آتیں ہیں اکثر

ہم ان کو دیکھنے منجدھار سے نکلے ہوئے ہیں

ہمارا ضبط بھی اب منتشر ہونے لگا ہے

ہمارے حوصلے بیمار سے نکلے ہوئے ہیں

ہمیں شہزاد اپنے آپ سے گھن آ رہی ہے

کہانی ہو کے ہم کردار سے نکلے ہوئے ہیں


شہزاد مرزا

No comments:

Post a Comment