طول شب سامنے اک ہجر کی تنہائی ہے
دل کے بہلانے کو یادوں کی مسیحائی ہے
دل ہے لبریز شکایت سے مگر کیا کیجے
پائے آداب میں زنجیر شکیبائی ہے
ان کے وعدہ پہ ذرا میں جو یقیں کرنے لگا
بولے گھبرا کے قسم ہم نے نہیں کھائی ہے
زندگی بھر مجھے آنسو تھے رلائے جس نے
چشم تر لے کے وہ تربت پہ مرے آئی ہے
ایک شاعر کے تصور سے کہاں چھپتا ہے
بند آنکھوں میں چھلکتی تری پرچھائی ہے
رک سی جاتی ہے گھٹا کر کے ترشح کچھ دم
کس تذبذب میں ہے کیوں آ کے یہاں چھائی ہے
کتنی امیدوں سے آغاز سفر کرتے ہیں
زندگی کیا ہے فقط فاصلہ پیمائی ہے
ہم نے سیکھا ہے یہ نیرنگ زمانہ سے امیر
نہ مسیحا ہے یہاں اور نہ مسیحائی ہے
جعفر امیر
No comments:
Post a Comment