Thursday, 17 July 2025

طول شب سامنے اک ہجر کی تنہائی ہے

 طول شب سامنے اک ہجر کی تنہائی ہے

دل کے بہلانے کو یادوں کی مسیحائی ہے

دل ہے لبریز شکایت سے مگر کیا کیجے

پائے آداب میں زنجیر شکیبائی ہے

ان کے وعدہ پہ ذرا میں جو یقیں کرنے لگا

بولے گھبرا کے قسم ہم نے نہیں کھائی ہے

زندگی بھر مجھے آنسو تھے رلائے جس نے

چشم تر لے کے وہ تربت پہ مرے آئی ہے

ایک شاعر کے تصور سے کہاں چھپتا ہے

بند آنکھوں میں چھلکتی تری پرچھائی ہے

رک سی جاتی ہے گھٹا کر کے ترشح کچھ دم

کس تذبذب میں ہے کیوں آ کے یہاں چھائی ہے

کتنی امیدوں سے آغاز سفر کرتے ہیں

زندگی کیا ہے فقط فاصلہ پیمائی ہے

ہم نے سیکھا ہے یہ نیرنگ زمانہ سے امیر

نہ مسیحا ہے یہاں اور نہ مسیحائی ہے


جعفر امیر

No comments:

Post a Comment