Monday, 28 July 2025

انجام شب غم کا لکھا اور ہی کچھ ہے

 انجام شب غم کا لکھا اور ہی کچھ ہے

لگتا ہے کہ منظور خدا اور ہی کچھ ہے

شاید ابھی تشخیص مرض ہو نہیں پائی

بیماری ہے کچھ اور دوا اور ہی کچھ ہے

سب پیار کی تشہیر کیا کرتے ہیں لیکن

ماحول ہے کچھ اور فضا اور ہی کچھ ہے

نافہم اگر نغمہ سمجھتے ہیں تو سمجھیں

گلشن میں عنادل کی نوا اور ہی کچھ ہے

گہوارۂ ہر شاخ میں گل ہے ابھی بے چین

گلشن کی ابھی آب و ہوا اور ہی کچھ ہے

ہر گام پہ چبھنے لگے کیوں پاؤں میں کانٹے

نیچے روش گل کے بچھا اور ہی کچھ ہے

دنیا میں ہر اک شے کے مقدر میں ہے جلنا

جلنے کی مگر سب کی ادا اور ہی کچھ ہے

معلوم ہے جلتا ہے چراغوں میں فقط تیل

لیکن تری محفل میں جلا اور ہی کچھ ہے

ہونٹوں پہ تبسم لیے پھرتے رہو کوثر

چہرے پہ مگر حال لکھا اور ہی کچھ ہے


کوثر صدیقی

No comments:

Post a Comment