انجام شب غم کا لکھا اور ہی کچھ ہے
لگتا ہے کہ منظور خدا اور ہی کچھ ہے
شاید ابھی تشخیص مرض ہو نہیں پائی
بیماری ہے کچھ اور دوا اور ہی کچھ ہے
سب پیار کی تشہیر کیا کرتے ہیں لیکن
ماحول ہے کچھ اور فضا اور ہی کچھ ہے
نافہم اگر نغمہ سمجھتے ہیں تو سمجھیں
گلشن میں عنادل کی نوا اور ہی کچھ ہے
گہوارۂ ہر شاخ میں گل ہے ابھی بے چین
گلشن کی ابھی آب و ہوا اور ہی کچھ ہے
ہر گام پہ چبھنے لگے کیوں پاؤں میں کانٹے
نیچے روش گل کے بچھا اور ہی کچھ ہے
دنیا میں ہر اک شے کے مقدر میں ہے جلنا
جلنے کی مگر سب کی ادا اور ہی کچھ ہے
معلوم ہے جلتا ہے چراغوں میں فقط تیل
لیکن تری محفل میں جلا اور ہی کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم لیے پھرتے رہو کوثر
چہرے پہ مگر حال لکھا اور ہی کچھ ہے
کوثر صدیقی
No comments:
Post a Comment