ویران ہوا ہردے کا نگر
سنسان پڑے ہیں کوچہ و در
بے چین بہت ہے ذوقِ نظر
لے جائے نہ جانے مجھ کو کدھر
اجمیر سے پھر سندیس ملا
لو آؤ چلو بلما کے نگر
سمجھے یہ بڑی ہی دیر میں ہم
پُر پیچ ہے کتنی دل کی ڈاگر
نِرمل ہے بہت ہی آہ مِری
اور دور بہت ہے تیرا نگر
لو بھور بھئی، جاگ اٹھے سجن
لو دیپ بجھے، اب جاؤ بھی گھر
کیا قہر ہے احمر پیت اگن
بھڑکے تو دُھواں، دہکے تو شرر
احمر رفاعی
ڈاکٹر احمد حسین احمر
ہردے: روح
نِربل: کمزور
بھور: صبح
پیت: پریم، عشق، محبت
اگن: آگ، تپش
No comments:
Post a Comment