کسی کی آنکھ میں رہتا کسی کے دل میں رہ جاتا
غبار غمزدہ اٹھتا تو اس مشکل میں رہ جاتا
لیا ہے گاہے گاہے نقش پائے یار کا بوسہ
نہ وہ باہر نکلتا یہ بھی ارماں دل میں رہ جاتا
سبب سے ناتوانی کے نہ پہنچا کوئے جاناں تک
جو میں گھر سے نکلتا پہلی ہی منزل میں رہ جاتا
زمانہ ہاتھ پھیلاتا حمیت ترک کر دیتا
عدم کی راہ میں گر کچھ کف سائل میں رہ جاتا
ہمیشہ میں خدنگ ناز کو رکھتا ہوں سینے میں
مرے دل سے نکلتا دوسرے کے دل میں رہ جاتا
ہمارے خون ناحق کی شہادت حشر میں دیتا
اگر دھبہ لہو کا خنجر قاتل میں رہ جاتا
سنا ہے بعد میرے اقربا کی غیر حالت تھی
نہ میری موت آتی میں بھی اس مشکل میں رہ جاتا
مری دریائے غم میں موت آ جاتی تو یہ ہوتا
بس اک طوفان اٹھ کر دامن ساحل میں رہ جاتا
یقیں ہے یوں تڑپتا سارے عالم کو خبر ہوتی
اگر دم نام کو باقی ترے گھائل میں رہ جاتا
ملا ہے خاک میں مجنوں سوارت ساری محنت تھی
کوئی ذرہ جو اڑ کر گوشۂ محمل میں رہ جاتا
لگایا ہاتھ پورا اور کہا جلاد نے ہنس کر
یہ کیوں ارمان اک باقی دل بسمل میں رہ جاتا
گیا میں اس کی صحبت میں خوشی سے موت آ جاتی
بہت اچھا تھا میرا ذکر اس محفل میں رہ جاتا
یقیں ہے بعد میرے پھر کسی کا امتحاں ہوتا
جو کوئی ظلم باقی آسماں کے دل میں رہ جاتا
غش آیا اس کو ایسا حشر کرتا سارے عالم میں
جو کچھ بھی ہوش باقی آپ کے غافل میں رہ جاتا
عیادت کو ترے احباب گر کچھ بھی نہ آ پائے
شفیق اس بات کا ارمان تیرے دل میں رہ جاتا
شفیق لکھنوی
سید احمد حسین
No comments:
Post a Comment