Tuesday, 15 July 2025

کسی کی آنکھ میں رہتا کسی کے دل میں رہ جاتا

 کسی کی آنکھ میں رہتا کسی کے دل میں رہ جاتا

غبار غمزدہ اٹھتا تو اس مشکل میں رہ جاتا

لیا ہے گاہے گاہے نقش پائے یار کا بوسہ

نہ وہ باہر نکلتا یہ بھی ارماں دل میں رہ جاتا

سبب سے ناتوانی کے نہ پہنچا کوئے جاناں تک

جو میں گھر سے نکلتا پہلی ہی منزل میں رہ جاتا

زمانہ ہاتھ پھیلاتا حمیت ترک کر دیتا

عدم کی راہ میں گر کچھ کف سائل میں رہ جاتا

ہمیشہ میں خدنگ ناز کو رکھتا ہوں سینے میں

مرے دل سے نکلتا دوسرے کے دل میں رہ جاتا

ہمارے خون ناحق کی شہادت حشر میں دیتا

اگر دھبہ لہو کا خنجر قاتل میں رہ جاتا

سنا ہے بعد میرے اقربا کی غیر حالت تھی

نہ میری موت آتی میں بھی اس مشکل میں رہ جاتا

مری دریائے غم میں موت آ جاتی تو یہ ہوتا

بس اک طوفان اٹھ کر دامن ساحل میں رہ جاتا

یقیں ہے یوں تڑپتا سارے عالم کو خبر ہوتی

اگر دم نام کو باقی ترے گھائل میں رہ جاتا

ملا ہے خاک میں مجنوں سوارت ساری محنت تھی

کوئی ذرہ جو اڑ کر گوشۂ محمل میں رہ جاتا

لگایا ہاتھ پورا اور کہا جلاد نے ہنس کر

یہ کیوں ارمان اک باقی دل بسمل میں رہ جاتا

گیا میں اس کی صحبت میں خوشی سے موت آ جاتی

بہت اچھا تھا میرا ذکر اس محفل میں رہ جاتا

یقیں ہے بعد میرے پھر کسی کا امتحاں ہوتا

جو کوئی ظلم باقی آسماں کے دل میں رہ جاتا

غش آیا اس کو ایسا حشر کرتا سارے عالم میں

جو کچھ بھی ہوش باقی آپ کے غافل میں رہ جاتا

عیادت کو ترے احباب گر کچھ بھی نہ آ پائے

شفیق اس بات کا ارمان تیرے دل میں رہ جاتا


شفیق لکھنوی

سید احمد حسین

No comments:

Post a Comment