تھا مِرا سب پر بچا کچھ بھی نہیں
اب مِرا مجھ میں رہا کچھ بھی نہیں
میں بھلا کیوں کہتا گر ملتی خوشی
زندگی غم کے سوا کچھ بھی نہیں
عمر خدمت کو دی اور اس کے عوض
ایک ہستی نے لیا کچھ بھی نہیں
یاں ضمیر انسان کا مر کھپ چکا
اور کہتے ہو ہُوا کچھ بھی نہیں
اس کے جانے پر مجھے ایسا لگا
جیسے میرا اب رہا کچھ بھی نہیں
دیکھیے مجنوں سی حالت ہو گئی
اور کہتے ہو سہا کچھ بھی نہیں
زندگی جی کر بھی اک انسان کو
کیوں لگے اس نے جیا کچھ بھی نہیں
آدمی سے ہو گے تم انسان کب
وقت ہے اب بھی گیا کچھ بھی نہیں
خاطر دنیا نہیں کیا کچھ کیا
اور کہتے ہو کیا کچھ بھی نہیں
آہ حسرت! کرتے ہیں انساں گُنہ
حشر کی جیسے سزا کچھ بھی نہیں
فیاض حسرت
No comments:
Post a Comment