Saturday, 12 July 2025

جبر کا دور ہے آہوں میں اثر پیدا کر

 جبر کا دور ہے آہوں میں اثر پیدا کر

ظلمت شب سے ہی آثار سحر پیدا کر

جور مغرب سے نہ انداز حذر پیدا کر

تخت باطل جو الٹ دیں وہ بشر پیدا کر

غیر کو اپنا بنا لے وہ نظر پیدا کر

سنگریزوں سے گہر پاش گہر پیدا کر

اک نظر دیکھ کے تو بھانپ لے مقصد دل کا

چشم بینا میں تفکر کا اثر پیدا کر

اپنی دنیا تجھے دنیا سے بنانی ہے الگ

آسماں تارے زمیں شمس و قمر پیدا کر

ہے ترا خواب گراں دورئ منزل کا سبب

خضر ہمدرد ہے اٹھ عزم سفر پیدا کر

کیوں زمانے کے خم و پیچ میں الجھا ہے تو

دل میں احساس تباہی و ضرر پیدا کر

غم شمشیر ہے کیا دست تہی اٹھ ناداں

تو بہادر ہے تو بے تیغ ظفر پیدا کر

آرزو جس کی تجھے ہے وہ نہاں ہے تجھ میں

دیکھنا ہو تو صداقت کی نظر پیدا کر

قوتیں ارض و سما کی ہیں تری فطرت میں

شاخ امید پہ مقصد کا ثمر پیدا کر

اپنے ایثار کا لے سنگ دلوں سے بدلہ

بات تو جب ہے کہ پتھر سے گہر پیدا کر

کیوں ہے مایوسیٔ پیہم سے ترا دل مایوس

بے خبر اپنی دعاؤں میں اثر پیدا کر

قید خورشید فلک تاب کی کرنیں کر لے

مستقل اپنی شب غم میں سحر پیدا کر

جنس الفت کی جو درکار خریداری ہے

میٹھا میٹھا سا ذرا درد جگر پیدا کر

عزم راسخ ہو اولو العزم ہو پہلے غافل

پھر اگر چاہے تو پتھر سے شرر پیدا کر

ہے تصرف میں ترے دہر کی ہر چیز رضی

اٹھ اور اٹھ کر انہیں ذروں سے قمر پیدا کر


رضی بدایونی

مولوی رضی احمد

No comments:

Post a Comment