دوستوں کو یوں ستانا چھوڑ دے
دشمنوں کا دل بڑھانا چھوڑ دے
تم ہی دنیا بھی مری ہو دین بھی
کیا ہے گر سارا زمانہ چھوڑ دے
حال دل کہنا جو چاہا یہ کہا
بے سر و پا یہ فسانہ چھوڑ دے
بزم دشمن میں وہ جا کر لٹ گئے
رہزن اور ایسا خزانا چھوڑ دے
شرم کر اے دل تغافل اس کا دیکھ
اب بھی حال دل سنانا چھوڑ دے
تاب نظارہ سے خود محروم ہیں
عاشقوں سے منہ چھپانا چھوڑ دے
اس کو میں پردہ نشیں سمجھوں اگر
میری نظروں میں سمانا چھوڑ دے
تند مے اور ساقیا وہ شعلہ خو
آگ پانی میں لگانا چھوڑ دے
داغ دل بلبل کو ہے رشک بہار
کیوں خزاں میں چہچہانا چھوڑ دے
کیوں جیے کیونکر جیے بیدل اگر
مہوشوں سے دل لگانا چھوڑ دے
بیدل عظیم آبادی
عبدالمنان بیدل
No comments:
Post a Comment