Saturday, 12 July 2025

دوستوں کو یوں ستانا چھوڑ دے

 دوستوں کو یوں ستانا چھوڑ دے

دشمنوں کا دل بڑھانا چھوڑ دے

تم ہی دنیا بھی مری ہو دین بھی

کیا ہے گر سارا زمانہ چھوڑ دے

حال دل کہنا جو چاہا یہ کہا

بے سر و پا یہ فسانہ چھوڑ دے

بزم دشمن میں وہ جا کر لٹ گئے

رہزن اور ایسا خزانا چھوڑ دے

شرم کر اے دل تغافل اس کا دیکھ

اب بھی حال دل سنانا چھوڑ دے

تاب نظارہ سے خود محروم ہیں

عاشقوں سے منہ چھپانا چھوڑ دے

اس کو میں پردہ نشیں سمجھوں اگر

میری نظروں میں سمانا چھوڑ دے

تند مے اور ساقیا وہ شعلہ خو

آگ پانی میں لگانا چھوڑ دے

داغ دل بلبل کو ہے رشک بہار

کیوں خزاں میں چہچہانا چھوڑ دے

کیوں جیے کیونکر جیے بیدل اگر

مہوشوں سے دل لگانا چھوڑ دے


بیدل عظیم آبادی

عبدالمنان بیدل

No comments:

Post a Comment