Tuesday, 15 July 2025

غفلتوں سے کبھی ہشیار بھی ہو سکتا ہے

 غفلتوں سے کبھی ہشیار بھی ہو سکتا ہے

آدمی خواب سے بیدار بھی ہو سکتا ہے

حسن کو عشق کا آزار بھی ہو سکتا ہے

جو مسیحا ہے وہ بیمار بھی ہو سکتا ہے

گلشنِ دہر کی رنگین بہاروں پہ نہ جا

آج جو پھول ہے وہ خار بھی ہو سکتا ہے

تیرے دیوانوں میں سب اہلِ غرض ہی تو نہیں

ان میں اک صاحبِ ایثار بھی ہو سکتا ہے

مل تو سکتی ہے ہمیں بھی کسی دامن میں پناہ

وہ تِرا سایۂ دیوار بھی ہو سکتا ہے

آرزوؤں کو اگر ضبط و تحمل سے رکھے

بوالہوس، صاحبِ کردار بھی ہو سکتا ہے

عشق دعویٰ ہی نہیں عینِ حقیقت بھی ہے ناز

اس کا انجام سرِ دار بھی ہو سکتا ہے


ناز مرادآبادی

انوار احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment