غفلتوں سے کبھی ہشیار بھی ہو سکتا ہے
آدمی خواب سے بیدار بھی ہو سکتا ہے
حسن کو عشق کا آزار بھی ہو سکتا ہے
جو مسیحا ہے وہ بیمار بھی ہو سکتا ہے
گلشنِ دہر کی رنگین بہاروں پہ نہ جا
آج جو پھول ہے وہ خار بھی ہو سکتا ہے
تیرے دیوانوں میں سب اہلِ غرض ہی تو نہیں
ان میں اک صاحبِ ایثار بھی ہو سکتا ہے
مل تو سکتی ہے ہمیں بھی کسی دامن میں پناہ
وہ تِرا سایۂ دیوار بھی ہو سکتا ہے
آرزوؤں کو اگر ضبط و تحمل سے رکھے
بوالہوس، صاحبِ کردار بھی ہو سکتا ہے
عشق دعویٰ ہی نہیں عینِ حقیقت بھی ہے ناز
اس کا انجام سرِ دار بھی ہو سکتا ہے
ناز مرادآبادی
انوار احمد صدیقی
No comments:
Post a Comment