Friday, 11 July 2025

گلوں سے ڈر رہے ہیں تتلیوں سے خوف آتا ہے

 گلوں سے ڈر رہے ہیں تتلیوں سے خوف آتا ہے

عجب عہد ستم ہے، دوستوں سے خوف آتا ہے

ہمیں لہروں سے لڑنا ہے یہ دریا پار کرنا ہے

مگر اے ناخداؤ! کشتیوں سے خوف آتا ہے

عجب ماحول ہے، سسکی، صدا، نوحہ نہیں کوئی

عجب چُپ ہے کہ دل کی دھڑکنوں سے خوف آتا ہے

کلیسا، بت کدے، مندر، کبھی دارالاماں ہوں گے

خدایا! کیا کریں؟ اب مسجدوں سے خوف آتا ہے

ہمارا بادشاہ ان بادشاہوں کی نشانی ہے

ہمیں جن وحشیوں کے مقبروں سے خوف آتا ہے

ابھی تو رات باقی ہے گلی میں کون اترا ہے

کنور ان اجنبی سی آہٹوں سے خوف آتا ہے


اعجاز کنور راجا

No comments:

Post a Comment