گلوں سے ڈر رہے ہیں تتلیوں سے خوف آتا ہے
عجب عہد ستم ہے، دوستوں سے خوف آتا ہے
ہمیں لہروں سے لڑنا ہے یہ دریا پار کرنا ہے
مگر اے ناخداؤ! کشتیوں سے خوف آتا ہے
عجب ماحول ہے، سسکی، صدا، نوحہ نہیں کوئی
عجب چُپ ہے کہ دل کی دھڑکنوں سے خوف آتا ہے
کلیسا، بت کدے، مندر، کبھی دارالاماں ہوں گے
خدایا! کیا کریں؟ اب مسجدوں سے خوف آتا ہے
ہمارا بادشاہ ان بادشاہوں کی نشانی ہے
ہمیں جن وحشیوں کے مقبروں سے خوف آتا ہے
ابھی تو رات باقی ہے گلی میں کون اترا ہے
کنور ان اجنبی سی آہٹوں سے خوف آتا ہے
اعجاز کنور راجا
No comments:
Post a Comment