Saturday, 3 October 2015

پھول پھول چہروں سے مدھ بھرے غزالوں سے

پھول پھول چہروں سے مدھ بھرے غزالوں سے
ہم بتوں پہ مرتے ہیں، سیکڑوں مثالوں سے
آپ کی یہ دلچسپی، ہم شکستہ حالوں سے
واسطہ نہ پڑ جائے مختلف سوالوں سے
دستِ غیبِ زاہد ہے، منسلک شوالوں سے
یہ خیال اونچا ہے، دوسرے خیالوں سے
جستجو میں ناکامی، ہم نے خود خریدی ہے
الجھنوں سے گھبرا کر، ڈر کے احتمالوں سے
“ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا”
ورنہ کون واقف تھا، ان پری جمالوں سے
ان کی نوجوانی کا ان سے ماجرا سننے
ناصحوں کو زِچ کیجے، ناصحوں کو چالوں سے
منظرِ رخِ و گیسو، جیسے شام آتی ہے
سُرمئ اندھیروں سے، نقرئ اجالوں سے
مصلحت نہیں ورنہ، روز روز ممکن ہیں
نوجوان فن پارے، ریشمیں خیالوں سے
عظمتِ تغزل میں ان سے کام لیتا ہوں
زندگی گزرتی ہے، شادؔ جن ملالوں سے

شاد عارفی

No comments:

Post a Comment