دل پہ کیا دوش محبت جو چھپائے نہ بنے
یہ وہ دریا ہے جو کوزے میں سمائے نہ بنے
شبِ وعدہ جو گزرتی ہے، بتائے نہ بنے
آس توڑے نہ بنے، آنکھ لگائے نہ بنے
گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے
بَن کے لیٹی ہو جوانی، تو اٹھائے نہ بنے
وہ مِرے سامنے آ جائے تو جائے نہ بنے
ہے یہ وہ رابطۂ دل، جو چھپائے نہ بنے
آج اس طرح دبے پاؤں پہنچ لو کہ اسے
شانہ رکھے نہ بنے، زلف بنائے نہ بنے
ہم نگاہوں سے بہت دور نکل آئے مگر
اب وہاں ہیں کہ جہاں بات بنائے نہ بنے
وہ ہوں یا میں، غمِ حالات سے عاجز آ کر
دل کہیں اور لگائیں تو لگائے نہ بنے
مست و مخمور نگاہی کا یہی مطلب ہے
وہ بھی پی لیں، جنہیں ساقی کو پلائے نہ بنے
انگلیاں اس کی مِرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ
ہاتھ کھینچے نہ بنے، جام گرائے نہ بنے
پاؤں سونے کی اذیت کا بہانہ بے سود
تیرے زانو پہ وہ سر ہے جو اٹھائے نہ بنے
وہی دو چار ہیں غمخوارِ حوادث، اے شادؔ
وہی دو چار جو اپنے تھے، پرائے نہ بنے
شاد عارفی
یہ وہ دریا ہے جو کوزے میں سمائے نہ بنے
شبِ وعدہ جو گزرتی ہے، بتائے نہ بنے
آس توڑے نہ بنے، آنکھ لگائے نہ بنے
گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے
بَن کے لیٹی ہو جوانی، تو اٹھائے نہ بنے
وہ مِرے سامنے آ جائے تو جائے نہ بنے
ہے یہ وہ رابطۂ دل، جو چھپائے نہ بنے
آج اس طرح دبے پاؤں پہنچ لو کہ اسے
شانہ رکھے نہ بنے، زلف بنائے نہ بنے
ہم نگاہوں سے بہت دور نکل آئے مگر
اب وہاں ہیں کہ جہاں بات بنائے نہ بنے
وہ ہوں یا میں، غمِ حالات سے عاجز آ کر
دل کہیں اور لگائیں تو لگائے نہ بنے
مست و مخمور نگاہی کا یہی مطلب ہے
وہ بھی پی لیں، جنہیں ساقی کو پلائے نہ بنے
انگلیاں اس کی مِرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ
ہاتھ کھینچے نہ بنے، جام گرائے نہ بنے
پاؤں سونے کی اذیت کا بہانہ بے سود
تیرے زانو پہ وہ سر ہے جو اٹھائے نہ بنے
وہی دو چار ہیں غمخوارِ حوادث، اے شادؔ
وہی دو چار جو اپنے تھے، پرائے نہ بنے
شاد عارفی
No comments:
Post a Comment