Saturday, 3 October 2015

کوئی بات کرو

گیت

کوئی بات کرو، کوئی بات کرو
کوئی خوشبو جیسی بات کرو

ہے سونا بن کے پھیلی دھوپ نظاروں پر
وہ چاندی جیسی برف جمی کوہساروں پر
کوئی بات کرو، کوئی بات کرو
کوئی خوشبو جیسی بات کرو 

بارش نے دریچے پہ آ کےدستک دی ہے
ہر سُو بھِیگے پیڑوں کی خوشبو پھیلی ہے
کوئی بات کرو، کوئی بات کرو
کوئی خوشبو جیسی بات کرو

ساحل پہ کہیں جب لہریں جھاگ اڑاتی ہوں
جب رنگیں بہاریں پھولوں کو لہراتی ہوں
تم کوئی سہانی بات کرو، کوئی بات کرو
کوئی خوشبو جیسی بات کرو

حسن اکبر کمال​

No comments:

Post a Comment