Monday, 5 October 2015

حال غم فراق سنایا نہ جائے گا

حالِ غمِ فراق سنایا نہ جائے گا
ان کو انہی کے سامنے لایا نہ جائے گا
یہ پردہ داریاں ہی رہیں گی تو ایک دن
مجھ سے بھی تیرے سامنے آیا نہ جائے گا
امیدِ امتیاز تو کیا ہو وہاں ، مگر
یہ بھی گماں نہ تھا بلایا نہ جائے گا
اے بے بسئ شوق یہ تاخیر کس لیے
کیا زہر ان کا غم ہے جو کھایا نہ جائے گا
دل پر تو ہے انہی کی نظر اے ہجومِ غم
آنسو بھی بن گیا تو بہایا نہ جائے گا
اے مجھ سے عشق رکھتے ہوئے مجھ سے بے نیاز
کب تک یہ امتیاز اٹھایا نہ جائے گا
پھر بھی یونہی رہے گا شب و روز کا شمار
تم آئے بھی تو وقت کا سایا نہ جائے گا
عالیؔ یونہی خراب رکھے گی شبِ حیات
جب تک کوئی چراغ جلایا نہ جائے گا

جمیل الدین عالی 

No comments:

Post a Comment