اب تک مجھے نہ کوئی مِرا رازداں ملا
جو بھی ملا، اسیرِ زمان و مکاں ملا
کیا جانے کیا سمجھ کے ہمیشہ کیا گریز
سو بار بجلیوں کو مِرا آشیاں ملا
اُکتا گیا ہوں جادۂ نو کی تلاش سے
ہر راہ میں کوئی نہ کوئی کارواں ملا
مدت میں ہم نے آپ بنایا تھا اک افق
جاتے تھے اس طرف کہ تِرا آستاں ملا
کن حوصلوں کے کتنے دِیے بجھ کے سو گئے
اے سوزِ عاشقی! تُو بہت ہی گراں ملا
کیا کچھ لُٹا دیا ہے تِری ہر ادا کے ساتھ
کیا مل گیا ہمیں جو یہ حسنِ بیاں ملا
تھا ایک رزادار محبت سے لطفِ زیست
لیکن وہ رازدارِ محبت کہاں ملا
اک عمر بعد اسی متلوّن نگاہ میں
کتنی محبتوں کا خزانہ نہاں ملا
اب جستجو کا رُخ جو مُڑا ہے تو مت پکار
سب تجھ کو ڈھونڈتے تھے مگر تُو کہاں ملا
جو بھی ملا، اسیرِ زمان و مکاں ملا
کیا جانے کیا سمجھ کے ہمیشہ کیا گریز
سو بار بجلیوں کو مِرا آشیاں ملا
اُکتا گیا ہوں جادۂ نو کی تلاش سے
ہر راہ میں کوئی نہ کوئی کارواں ملا
مدت میں ہم نے آپ بنایا تھا اک افق
جاتے تھے اس طرف کہ تِرا آستاں ملا
کن حوصلوں کے کتنے دِیے بجھ کے سو گئے
اے سوزِ عاشقی! تُو بہت ہی گراں ملا
کیا کچھ لُٹا دیا ہے تِری ہر ادا کے ساتھ
کیا مل گیا ہمیں جو یہ حسنِ بیاں ملا
تھا ایک رزادار محبت سے لطفِ زیست
لیکن وہ رازدارِ محبت کہاں ملا
اک عمر بعد اسی متلوّن نگاہ میں
کتنی محبتوں کا خزانہ نہاں ملا
اب جستجو کا رُخ جو مُڑا ہے تو مت پکار
سب تجھ کو ڈھونڈتے تھے مگر تُو کہاں ملا
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment