گِلہ نہیں جو وہ بے گانہ وار گزرے ہیں
ہم ایسے اہلِ سخن بے شمار گزرے ہیں
ترس نہ کھاؤ مِری شِدّتِ تباہی پر
کہ عمر بھر یہی لیل و نہار گزرے ہیں
تمام عمر رہا خوفِ ناپزیرائی
جدھر سے گزرے ہیں دیوانہ وار گزرے ہیں
ہمِیں سے تذکرۂ قحطِ عاشقاں، توبہ
ہمِیں تو کل تِرے کوچے سے یار گزرے ہیں
رہینِ وضعِ بزرگاں ہے اپنا دل، یعنی
تِرے ہی شہر میں تجھ سے ہزار گزرے ہیں
ہمارا نام بھی رکھیے فسانہ خوانوں میں
کہ ہم بھی اپنے سوانح نگار گزرے ہیں
ہم اپنے جوشِ تمنا میں بھُول بیٹھے ہیں
کہ ہم سے اور بھی امیدوار گزرے ہیں
اس انجمن میں تجھے کون پوچھتا عالیؔ
ہزار تجھ سے غریب الدیار گزرے ہیں
ہم ایسے اہلِ سخن بے شمار گزرے ہیں
ترس نہ کھاؤ مِری شِدّتِ تباہی پر
کہ عمر بھر یہی لیل و نہار گزرے ہیں
تمام عمر رہا خوفِ ناپزیرائی
جدھر سے گزرے ہیں دیوانہ وار گزرے ہیں
ہمِیں سے تذکرۂ قحطِ عاشقاں، توبہ
ہمِیں تو کل تِرے کوچے سے یار گزرے ہیں
رہینِ وضعِ بزرگاں ہے اپنا دل، یعنی
تِرے ہی شہر میں تجھ سے ہزار گزرے ہیں
ہمارا نام بھی رکھیے فسانہ خوانوں میں
کہ ہم بھی اپنے سوانح نگار گزرے ہیں
ہم اپنے جوشِ تمنا میں بھُول بیٹھے ہیں
کہ ہم سے اور بھی امیدوار گزرے ہیں
اس انجمن میں تجھے کون پوچھتا عالیؔ
ہزار تجھ سے غریب الدیار گزرے ہیں
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment