Tuesday 27 December 2016

کوئی پیکر ہے نہ خوشبو ہے نہ آواز ہے وہ

کوئی پیکر ہے نہ خوشبو ہے نہ آواز ہے وہ
ہاتھ لگتا ہی نہیں۔ ایسا کوئی راز ہے وہ
ایک صورت ہے جو مٹتی ہے بنا کرتی ہے
کبھی انجام ہے میرا، کبھی آغاز ہے وہ
اس کو دنیا میں میری طرح ضرر کیوں پہنچے
میں زمانے کا مخالف ہوں جہاں ساز ہے وہ
لوگ اس کے ہی اشاروں پہ اڑے پھرتے ہیں
بال و پر دیکھے کے ہیں قوت پرواز ہے وہ
پتھروں پر بھی جو قدموں کے نشاں ثبت کرے
صاحب کشف ہے وہ صاحب اعجاز ہے وہ
سوچ کر اس سے ملو وہ میرا ہمزاد سہی
سحر کر دیتا ہے ذہنوں پہ فزوں ساز ہے وہ
اک کھنڈر جس سے کوئی اب تو گزرتا بھی نہیں
اپنے ماضی کے حسیں دور کا غماز ہے وہ
کیوں نہ محسنؔ اسے سینے سے لگائے رکھوں
میرے ہی ٹوٹے ہوئے ساز کی آواز ہے وہ

محسن زیدی

No comments:

Post a Comment