Tuesday, 27 December 2016

چھوڑ آئے سر پہ تھی جو ابر کی چادر کہاں

چھوڑ آئے سر پہ تھی جو ابر کی چادر کہاں
چلچلاتی دھوپ میں جاتے ہو ننگے سر کہاں
میں مخاطب خود سے ہوں، میرا مخاطب کون ہے
جائے گی میری صدا دیوار سے باہر کہاں
سوچ لو پیچھے وہی تشکیک کا صحرا ہے پھر
لوٹتے ہو سرحدِ ادراک تک آ کر کہاں
دشتِ غربت میں تو سب ہی خانماں برباد ہیں
کس سے پوچھے کوئی چھوڑ آئے ہو اپنا گھر کہاں
منحصر ہے فصلِ غم پر اس کا پھلنا پھولنا
یہ شجر دل کا ہر اک موسم میں بارآور کہاں  
بڑھ رہے ہیں اپنی حد سے دریا ہوں کہ دشت
اب مقید محسنؔ اپنی حد میں بحر و بر کہاں

محسن زیدی

No comments:

Post a Comment