چھوڑ آئے سر پہ تھی جو ابر کی چادر کہاں
چلچلاتی دھوپ میں جاتے ہو ننگے سر کہاں
میں مخاطب خود سے ہوں، میرا مخاطب کون ہے
جائے گی میری صدا دیوار سے باہر کہاں
سوچ لو پیچھے وہی تشکیک کا صحرا ہے پھر
دشتِ غربت میں تو سب ہی خانماں برباد ہیں
کس سے پوچھے کوئی چھوڑ آئے ہو اپنا گھر کہاں
منحصر ہے فصلِ غم پر اس کا پھلنا پھولنا
یہ شجر دل کا ہر اک موسم میں بارآور کہاں
بڑھ رہے ہیں اپنی حد سے دریا ہوں کہ دشت
اب مقید محسنؔ اپنی حد میں بحر و بر کہاں
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment