پھوڑتے پھرتے ہیں ہر سنگ سے ہم سر اپنا
پھینک لو تم بھی بڑے شوق سے پتھر اپنا
خود کو ہم چھوڑ کے نکلے ہیں سفر پر یہ کہاں
تہ کِیا رکھا ہے کس دیس میں بستر اپنا
تم نے اک بار بھی خود سے نہیں پوچھا ہم کو
جب تک امید تھی دھڑکا سا لگا رہتا تھا
عالمِ یاس میں کچھ حال ہے بہتر اپنا
پڑ گئے ماند کہ روشن ہیں ستارے اپنے
ہم بھی دیکھیں تو ذرا ہاتھ دکھا کر اپنا
وہ برا وقت نہ اب لوٹ کے شاید آۓ
رکھ گیا ہے مگر احساس پہ نشتر اپنا
آج تک نہر ہے جس دشت کے سینے پہ رواں
پیاس میں قتل ہوا تھا وہیں لشکر اپنا
تاک میں اسکے بھی ہے گردِ زمانہ محسنؔ
رہ گیا ہے جو کوئی نقش اجاگر اپنا
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment