لڑ کے جاتے ہو تو ایک تیغ لگاتے جاؤ
ہاتھ اٹھاتے ہو تو یوں ہاتھ اٹھاتے جاؤ
وعدۂ شام کرو، صبح کو جاتے ہو اگر
کوئی بے وقت جو سوئے تو جگاتے جاؤ
کہیں بدنام نہ ہو جاؤ پشیماں کیوں ہو
یوں چلو راہ وفا میں کہ نہ پائے کوئی
جو نشاں راہ میں ہیں ان کو مٹاتے جاؤ
حالِ دل سچ بھی کہوں میں تو مجھے جھٹلا دو
بھید کھلتے ہوں تو کچھ بات بناتے جاؤ
میر کا نام تو روشن ہے مگر اے مرزؔا
ایک چراغ اور سرِ راہ جلاتے جاؤ
مرزا ہادی رسوا
No comments:
Post a Comment