Tuesday 27 December 2016

لڑ کے جاتے ہو تو ایک تیغ لگاتے جاؤ

لڑ کے جاتے ہو تو ایک تیغ لگاتے جاؤ
ہاتھ اٹھاتے ہو تو یوں ہاتھ اٹھاتے جاؤ
وعدۂ شام کرو، صبح کو جاتے ہو اگر
کوئی بے وقت جو سوئے تو جگاتے جاؤ
کہیں بدنام نہ ہو جاؤ پشیماں کیوں ہو
ہاتھ ملتے ہو تو مہندی بھی لگاتے جاؤ
یوں چلو راہ وفا میں کہ نہ پائے کوئی
جو نشاں راہ میں ہیں ان کو مٹاتے جاؤ
حالِ دل سچ بھی کہوں میں تو مجھے جھٹلا دو
بھید کھلتے ہوں تو کچھ بات بناتے جاؤ
میر کا نام تو روشن ہے مگر اے مرزؔا
ایک چراغ اور سرِ راہ جلاتے جاؤ

مرزا ہادی رسوا

No comments:

Post a Comment