Monday 26 December 2016

پہلے تیار کیوں نہیں ہوتا

پہلے تیار کیوں نہیں ہوتا
جسم بیدارکیوں نہیں ہوتا
میں نے بھیدوں سے بھر لیا خود کو
مجھ سے اظہار کیوں نہیں ہوتا
ٹوٹتا جا رہا ہوں بارش سے
سارا مسمار کیوں نہیں ہوتا
جو مرے بعد رکھ رہا ہے قدم
تیز رفتار کیوں نہیں ہوتا
خوف سے دور ہو رہا ہوں میں
ایک ہی بار کیوں نہیں ہوتا
آئینہ دیکھتا ہے روزمجھے
مجھ سے بیزار کیوں نہیں ہوتا
اب پیالے کا آخری بوسہ
ذائقہ دار کیوں نہیں ہوتا

فیصل ہاشمی

No comments:

Post a Comment