پہلے تیار کیوں نہیں ہوتا
جسم بیدارکیوں نہیں ہوتا
میں نے بھیدوں سے بھر لیا خود کو
مجھ سے اظہار کیوں نہیں ہوتا
ٹوٹتا جا رہا ہوں بارش سے
جو مرے بعد رکھ رہا ہے قدم
تیز رفتار کیوں نہیں ہوتا
خوف سے دور ہو رہا ہوں میں
ایک ہی بار کیوں نہیں ہوتا
آئینہ دیکھتا ہے روزمجھے
مجھ سے بیزار کیوں نہیں ہوتا
اب پیالے کا آخری بوسہ
ذائقہ دار کیوں نہیں ہوتا
فیصل ہاشمی
No comments:
Post a Comment