لمحاتِ وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے
وہ ہاتھ بڑھ نہ پاۓ کہ گھونگھٹ سمٹ گئے
خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں
ہم بد گماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے
شہرِ وفا میں دھوپ کا ساتھی کوئی نہیں
ملنا،۔ دوبارہ ملنے کو وعدہ،۔ جدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے
روئ ہوں آج کھل کے بڑی مدتوں کے بعد
بادل جو آسمان پہ چھائے تھے، چھٹ گئے
کس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل
آئی ہوا تو کتنے ورق ہی الٹ گئے
اتنی جسارتیں تو اسی کو نصیب تھیں
جھونکے ہوا کے کیسے گلے سے لپٹ گئے
دستِ ہوا نے جیسے درانتی سنبھال لی
اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment