Tuesday 27 December 2016

عجیب سی رتیں تھیں اور عجب ہی پیرہن ملا

عجیب سی رتیں تھیں اور عجب ہی پیرہن ملا
کہ لوگ پھول مانگتے تھے اور انہیں کفن ملا
گلی گلی میں بس رچی ہوئی ہے خون کی مہک
یہ موسم بہار بھی عجب تجھے وطن ملا
ہر ایک اپنی ذات کے حصار میں اسیر تھا
کہ خود فریبیوں میں ہی ہر ایک موجزن ملا
میں اک مہک تھی پھول کی، بکھر کے دور تک گئی
یہ اور بات ہے مجھے کہیں نہ پھر چمن ملا
لبوں پہ جو دعائیں تھیں کہاں نہ جانے کھو گئیں
ہر ایک رہگزار پر ہمیں تو راہزن ملا
میں ذہن و دل کی جنگ سے تھکی ہوئی ہوں بے طرح
کسی کی یاد اوڑھ کر یہ خاک کا بدن ملا

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment