عجیب سی رتیں تھیں اور عجب ہی پیرہن ملا
کہ لوگ پھول مانگتے تھے اور انہیں کفن ملا
گلی گلی میں بس رچی ہوئی ہے خون کی مہک
یہ موسم بہار بھی عجب تجھے وطن ملا
ہر ایک اپنی ذات کے حصار میں اسیر تھا
میں اک مہک تھی پھول کی، بکھر کے دور تک گئی
یہ اور بات ہے مجھے کہیں نہ پھر چمن ملا
لبوں پہ جو دعائیں تھیں کہاں نہ جانے کھو گئیں
ہر ایک رہگزار پر ہمیں تو راہزن ملا
میں ذہن و دل کی جنگ سے تھکی ہوئی ہوں بے طرح
کسی کی یاد اوڑھ کر یہ خاک کا بدن ملا
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment