میں کہاں سے چلا تھا تِری چاہ میں دل دھڑکنے لگا سوچتے سوچتے
اجنبی راستے، بے صدا منزلیں،۔ میں کہاں آ گیا سوچتے سوچتے
اب گھنیرے اندھیرے ہیں گھیرے ہوئے دور کچھ اور ہم سے سویرے ہوئے
روشنی کے کہاں پر بسیرے ہوئے،۔ ذہن دھندلا گیا سوچتے سوچتے
مشعلیں بجھ گئیں نقش پا مٹ گئے، منزلیں چھپ گئیں رہنما لٹ گئے
دشتِ غم ہے ستم کی کڑی دھوپ ہے ہر مسافر کا بدلا ہوا روپ ہے
تھک گئی ہر زباں بولتے بولتے، ذہن چکرا گیا سوچتے سوچتے
موج در موج کرنیں اتاری گئیں، چاندنی میں ڈھلے آسمان و زمیں
ظلمتِ شب مگر ختم ہوتی نہیں،۔ چاند گہنا گیا سوچتے سوچتے
یاس کی بادِ صرصر بھی چلتی رہی آس کی شمع آخر بھی چلتی رہی
میں اندھیروں میں پہروں بھٹکتا رہا، راستہ پا گیا سوچتے سوچتے
تابش الوری
No comments:
Post a Comment