دیرینہ ہے فرنگ کی اسلام دشمنی
ہے پہلے دن کی اس سے ہماری کتاچھنی
دنیا کے سب یہود ہیں انگریز کے حلیف
دونوں کے ساتھ جنگ مسلمان کی ٹھنی
تہذیبِ نو کی جلوہ گری سے خدا بچائے
مشرق میں آ کے راہنمائی کریں گے کیا
خود اپنے گھر میں مشغلہ جن کا ہے رہزنی
آنکھیں دکھا رہا ہے مسلمان کو فرانس
جس کی نظر میں اہلِ مراکش ہیں کشتنی
غافل مگر ہے اس سے کہ اس کی پشت پر
بیٹھا ہوا ہے دشمنِ جاں اس کا جرمنی
ترکوں سے ایک بات میں ہم بھی نہیں ہیں کم
ہم بات کے دھنی ہیں، وہ تلوار کے دھنی
ایراں کا تاجور ہے رضا شاہ پہلوی
اللہ نے دیا جسے زورِ تہمنی
اس کی مساعدت کیلئے رونما ہوا
کابل کے تاجدار کا نیروئے ہمنی
ان پر ہے مستزاد نیستانِ نجد میں
ابنِ سعود کی روش ضیغم افگنی
پیوست ہونے والی ہے قلبِ صلیب میں
اسلامیوں کے نیزہ کی جوشن گزارنی
مسجد سے گردوارہ کمیٹی کو کام کیا
گھر میں خدا کے آئیں کیوں یہ شرومنی
آویزہ ہائے گوشِ نصیحت نیوش میں
در ہائے سفتنی ہیں، سخن ہائے گفتنی
مولانا ظفر علی خان
No comments:
Post a Comment