Tuesday 27 December 2016

پہلے پہل جب امبر کے نیچے ہم تم ملے تھے

پہلے پہل جب امبر کے نیچے ہم تم ملے تھے
خوشبو اڑی تھی، شمعیں جلی تھیں، غنچے کھلے تھے
یاد آ رہا ہے اک خوابِ شیریں دیکھا تھا ہم نے
کل مفلسوں کے ساغر بھرے تھے، دامن سلے تھے
کل ہی کا تو یہ قصہ ہے یارو! قاتل کے ڈر سے
ہر کوئی چپ تھا، پہرہ لگا تھا اور لب سلے تھے
اک دن یہاں بھی ظلم و ستم کی آندھی چلی تھی
اک دن یہاں بھی ہم جیسے لوگوں کے دل ہلے تھے
کتنی سہانی بنگال کی وہ شامِ حسیں تھی
ہگلی کے رنگین ساحل پہ دوراؔں جب وہ ملے تھے

اویس احمد دوراں

No comments:

Post a Comment