Tuesday 27 December 2016

خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی

خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی
میں پیمبر تو نہیں ہوں کہ بچا لے مجھے کوئی
اپنی دنیا کے مہ و مہر سمیٹے سرِ شام
کر گیا جادۂ فردا کے حوالے مجھے کوئی
اتنی دیر اور تؤقف، کہ یہ آنکھیں بجھ جائیں
کسی بے نور خرابے میں اجالے مجھے کوئی
کس کو فرصت ہے کہ تعمیر کرے از سرِ نو
خانۂ خواب کے ملبے سے نکالے مجھے کوئی
اب کہیں جا کے سمیٹی ہے امیدوں کی بساط
ورنہ اک عمر کی ضد تھی کہ سنبھالے مجھے کوئی
کیا عجب خیمۂ جاں تیری طنابیں کٹ جائیں
اس سے پہلے کہ ہواؤں میں اچھالے مجھے کوئی
کیسی خواہش تھی کہ سوچو تو ہنسی آتی ہے
جیسے میں چاہوں اسی طرح بنا لے مجھے کوئی
تیری مرضی مِری تقدیر! کہ تنہا رہ جاؤں
مگر اک آس تو دے پالنے والے مجھے کوئی

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment