Tuesday, 27 December 2016

اندھی شبو بے قرار راتو

اندھی شبو بے قرار راتو

اندھی شبو، بے قرار راتو 
اب تو کوئی جگمگاتا جگنو
اب کوئی تمتماتا مہتاب
اب تو کوئی مہرباں ستارہ
گلیوں میں قریب شام ہر روز
لگتا ہے جو صورتوں کا میلہ 
آتا ہے جو قامتوں کا ریلا
کہتی ہیں حیرتی نگاہیں
کس کس کو ہجوم میں سے چاہیں
لیکن یہ تمام لوگ کیا ہیں
اپنے سے دور ہیں جدا ہیں
ہم نے بھی تو جی کو خاک کر کے
دامان شکیب چاک کر کے
وحشت ہی کا آسرا لیا تھا
جینے کو جنوں بنا لیا تھا
اچھا نہ کیا، مگر کیا تو
اندھی شبو، بے قرار راتو

کب تک یونہی محفلوں کے پھیرے
اچھے نہیں جی کے یہ اندھیرے
اب تو کوئی بھی دید نہیں ہے
ہونے کی بھی امید نہیں ہے
ہم بھی تو عہد پاستاں ہیں
ماضی کے ہزار داستاں ہیں
پیماں کے ہزار باغ توڑے
دامان وفا پہ داغ چھوڑے
دیکھیں جو انا کے روزنوں سے
پیچھے کہیں دور دور مدھم
پراں ہیں خلا کی وسعتوں میں
اب بھی کئی ٹمٹماتے جگنو
اب بھی کئی ڈبڈباتے مہتاب
اب بھی کئی دستاں ستارے
آزردہ بحال، طپاں ستارے
پیچھے کو نظر ہزار بھاگے
لوگو! رہِ زندگی ہے آگے
جتنے یہاں رازدار غم ہیں
تارے ہیں کہ چاند ہے کہ ہم ہیں 
ان کا تو اصول ہے یہ بانکے
اس دل میں نہ اور کوئی جھانکے
خالی ہوئے جام عاشقی کے
اکھڑے ہیں خیام عاشقی کے 
قصے ہیں تمام عاشقی کے

ابن انشا

No comments:

Post a Comment