Tuesday 27 December 2016

دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی

دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی
دل کو خوں ہونے دیا، آنکھ کو زحمت نہیں دی
ہم بھی اس سلسلۂ عشق میں بیعت ہیں جسے
ہجر نے دکھ نہ دیا، وصل نے راحت نہیں دی
ہم بھی اک شام بہت الجھے ہوۓ تھے خود میں
ایک شام اس کو بھی حالات نے مہلت نہیں دی
عاجزی بخشی گئی، تمکنتِ فقر کے ساتھ
دینے والے نے ہمیں کون سی دولت نہیں دی
بے وفا دوست کبھی لوٹ کے آۓ تو انہیں
ہم نے اظہارِ ندامت کی اذیت نہیں دی
دل کبھی خواب کے پیچھے، کبھی دنیا کی طرف
ایک نے اجر دیا، ایک نے اجرت نہیں دی

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment