جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
دل بہلنے کی نہیں کوئی سبیل
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
ڈالتا ہوں اپنے ماضی پر نگاہ
گاہے گاہے کھنچتا ہوں سرد آہ
کس طرح اب دل کو رِہ پر لاؤں میں
سب کو محو خواب راحت چھوڑ کے
نیند آتی ہے شبستاں میں مِرے
مجھ کو سوتے دیکھ کر آتا ہے کوئی
میرے سینے سے چمٹ جاتا ہے کوئی
دیکھتا ہوں آ کے اکثر ہوش میں
کوئی ظالم ہے مِری آغوش میں
خود کو مگر تنہا ہی پاتا ہوں میں
پھر گھڑی بھر بعد سو جاتا ہوں میں
پھر کسی کو دیکھتا ہوں خواب میں
اس دفعہ پہچان لیتا ہوں تمہیں
بھاگ جاتے ہو قریب صبح دم
چھوڑ دیتے ہو رہینِ رنج و غم
مجھ کو تم سے عشق تھا مدت ہوئی
ان دنوں تم کو بھی الفت مجھ سے تھی
کم نگاہی اقتصائے سال و سن
کیا ہوئی تھی بات جانے ایک دن
بند ا پنا آنا جانا ہو گیا
اور اس پر اک زمانا ہو گیا
تم غلط سمجھے ہوا میں بد گماں
بات چھوٹی تھی مگر پہنچی کہاں
جلد ہی میں تو پیشماں ہو گیا
تم کو بھیا حساس کچھ ایسا ہوا
نشہ پندار میں لیکن تھے مست
تھی گراں دونوں پہ تسلیم شکست
ہجر کے صحرا کو طے کرنا پڑا
مل گیا تھا رہنما امید سا
ہے مِری جرأت کی اصل اب بھی یہی
دل یہ کہتا ہے کہ دیکھیں تو سہی
جس میں اترا تھا ہمارا کارواں
اب بھی ممکن ہے وہ خالی ہو مکاں
آج تک دیتے رہے دل کو فریب
اب نہیں ممکن ذرا تابِ شکیب
آؤ، میرے دیدۂ تر میں رہو
آؤ، اس اجڑے ہوۓ گھر میں رہو
حوصلے سے میں پہل کرتا تو ہوں
دل میں اتنا سوچ کر ڈرتا بھی ہوں
تم نہ ٹھکرا دو مِری دعوت کہیں
میں یہ سمجھوں گا اگر کہہ دو نہیں
گردشِ ایام کو لوٹا لیا
میں نے جو کھو دیا تھا، پا لیا
ابن انشا
No comments:
Post a Comment