کیوں نام ہم اس کے بتلائیں
تم اس لڑکی کو دیکھتے ہو
تم اس لڑکی کو جانتے ہو
وہ اجلی گوری، نہیں، نہیں
وہ مست چکوری، نہیں، نہیں
وہ جس کا کرتا نیلا ہے
وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے
وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے
ان سب سے الگ ان سب سے پرے
وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے
کیا گول مٹول سا چہرہ ہے
جو ہر دم ہنستا رہتا ہے
کچھ چتون ہیں البیلے سے
کچھ اس کے نین نشیلے سے
اس وقت مگر سوچوں میں مگن
وہ سانولی صورت کی ناگن
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
یہ گیت اسی کا درپن ہے
یہ گیت ہمارا جیون ہے
ہم اس ناگن کے گھائل تھے
ہم اس کے مسائل تھے
جب شعر ہماری سنتی تھی
خاموش دوپٹا چنتی تھی
جب وحشت اسے سستاتی تھی
کیا ہرنی سی بن جاتی تھی
یہ جتنے بستی والے تھے
اس چنچل کے متوالے تھے
اس گھر میں کتنے سالوں کی
تھی بیٹھک چاہنے والوں کی
گو پیار کی گنگا بہتی تھی
وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی
یہ لوگ تو محض سہارے ہیں
انشاؔ جی ہم تو تمہارے ہیں
اب اور کسی کی چاہت کا
کرتی ہے بہانا، بیٹھی ہے
ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا
دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں
نا دل مانا، نا ہم مانے
انجام تو سب دنیا والے جانے
جو ہم سے ہماری وحشت کا
سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے
ہم جس کے لیے پردیس پھریں
جوگی کا بدل کر بھیس پھریں
چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
اس شہر کے ایک گھروندے میں
اس بستی کے اک کونے میں
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
اس درد کو اب چپ چاپ سہو
انشاؔ جی لہو تو اس سے کہو
جو چتون کی شکلوں میں لیے
آنکھوں میں لیے، ہونٹوں میں لیے
خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
ہم جس کے لیے پردیس پھرے
چاہت کے نرالے گیت لکھے
جی موہنے والے گیت لکھے
جو سب کے لیے دامن میں بھرے
خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
جو درد بھی ہے اور دار و بھی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
وہ کل بھی ملنے آئی تھی
وہ آج بھی ملنے آئی ہے
جو اپنی نہیں پرائی ہے
ابن انشا
No comments:
Post a Comment