تُو نے سوچا ہی نہیں کچھ بھی ہٹا کر اس سے
اب بچھڑنا ہے تو پھر خود کو جدا کر اس سے
وہ بگڑتا ہے،۔ تو دنیا ہی بگڑ جاتی ہے
اس لیے رکھنی پڑی مجھ کو بنا کر اس سے
بات کیا ہے کہ اٹھائی ہی نہ جائیں پلکیں
ایک جگنو تھا مگر اس سے جلے کتنے چراغ
رابطے بڑھتے گئے ربط بڑھا کر اس سے
میں کہانی میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں اے دل
پوچھنا ہو گا کسی روز بٹھا کر اس سے
کس طرح اس پہ تیرے درد کا منظر کھلتا
تُو محبت بھی تو کرتی تھی چھپا کر اس سے
لہر جس طرح کنارے کو چھوئے آخری بار
ایسا محسوس ہُوا ہاتھ ملا کر اس سے
رخشندہ نوید
No comments:
Post a Comment