در و دیوار سے جالا نہیں جاتا اماں
مجھ سے گھر بار سنبھالا نہیں جاتا اماں
فکرِ عقبیٰ ہو کہ دنیا ہو، کہ ہو فکرِ فراق
روگ کیسا بھی ہو، پالا نہیں جاتا اماں
یہ جو کچھ اشک مِری آنکھوں میں در آئے ہیں
پاؤں سے ہٹ کے تہِ دِل میں ابھر آتا ہے
مندمل ہو کے بھی چھالا نہیں جاتا اماں
بحر درکار رہا وسعتِ غم کو،۔ لیکن
موجِ دریا کو اچھالا نہیں جاتا اماں
کیسے نکلے گا اندھیروں سے مِرے بخت کا چاند
اس کے اطراف سے ہالا نہیں جاتا اماں
رخشندہ نوید
No comments:
Post a Comment