پھیکا پھیکا مِرے چہرے پہ وہی رنگ سا ہے
اتنا آرام میسر ہے کہ دل تنگ سا ہے
میں نے پلکوں کو کئی روز سے موندا ہی نہیں
شاخ پر ایک پرندہ بھی بہت دنگ سا ہے
اس قدر شہرِ خموشاں میں ہے اس بار ہجوم
کیسے طے ہو گا سفر پھر اسی رفتار کے ساتھ
پاؤں میں اپنے بندھا جیسے کوئی سنگ سا ہے
ہم کو اک وہم سا رہتا ہے کہ تکیے پہ کہیں
ایک دستک ہے کہ آہٹ ہے کہ آہنگ سا ہے
ایک یہ دل ہے کہ ترتیب میں آتا ہی نہیں
ایک اظہار محبت ہے جو بے ڈھنگ سا ہے
اس کے سینے میں تمہارے لیے رخشندؔہ نوید
اک کدورت ہی نہیں اس میں بہت زنگ سا ہے
رخشندہ نوید
No comments:
Post a Comment