Tuesday 27 December 2016

سمندر بھی ہوا عبرت نشان پانی ہی پانی

سمندر بھی ہوا عبرت نشان پانی ہی پانی
کنارے اور ان کے درمیاں، پانی ہی پانی 
عجب دنیا ہے، اس کو فکرِ دنیا ہی نہیں ہے 
فقط دیکھا ہے تو گِریہ کناں، پانی ہی پانی
پریشانی بھی مانع ہے بیانِ حالِ دل میں
نہ ہو جائے کہیں اپنی زباں پانی ہی پانی
نگاہِ نم سے اس خاطر بھی رشتہ جوڑے رکھا
کہ میں ہوں ایک صحرا اور یہاں پانی ہی پانی
تمہارے ساتھ جب یہ تن بدن بارش میں بھیگا
لہو تھا منجمد مجھ میں، رواں پانی ہی پانی
یہ پورے آسماں پہ نیلا نیلا رنگ کیا ہے؟ 
ستارے جیسے ہوں سنگِ گِراں پانی ہی پانی

رخشندہ نوید

No comments:

Post a Comment