Monday 26 December 2016

ابھی تک راز فطرت ہے اگر چاہے بیاں ہو جا

نذرِ اقبال

ابھی تک رازِ فطرت ہے اگر چاہے بیاں ہو جا
کبھی اپنی زمیں ہو جا، کبھی تُو آسماں ہو جا
بھلا کب تک سناتا جاۓ گا اغیار کے قصے
خود اپنی داستاں لکھ اور پھر خود ہی بیاں ہو جا
تُو ہی جادہ، تُو ہی منزل، تجھے رہرو سے کیا مطلب
کبھی صحرا، کبھی دریا، کبھی سیلِ رواں ہو جا
کہاں گم ہو گیا ہے تُو زمینوں، آسمانوں میں
خود اپنے آپ کو پا لے، خود اپنا رازداں ہو جا
مقامِ بندگی کیا ہے، خودی کیا، بے خودی کیا ہے
کبھی خود آشکارا ہو، کبھی سرِ نہاں ہو جا
مقید کیسے ہو کر رہ گیا صحنِ گلستاں میں
شمیؔمِ گل ہے تُو ہر سُو رواں ہو جا، دواں ہو جا

شمیم فاروقی

No comments:

Post a Comment