لوگوں کا کیا قصور کہ نادان میں ہی تھا
اپنی حماقتوں سے پریشان میں ہی تھا
مجبور تھا، وہ حوصلہ کس پر نکالتا
اس کیلئے تو شہر میں آسان میں ہی تھا
میرا ہی خوف اس کو برابر لگا رہا
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ہو گا کوئی فقیر
کتنی عجیب بات کہ سلطان میں ہی تھا
منظر کی سمت اب کے کسی کی نظر نہ تھی
سب مجھ کو تک رہے تھے کہ حیران میں ہی تھا
پھر بھی وہ مجھ سے دور بہت دور تھا شمیؔم
حالاں کہ اس کی آخری پہچان میں ہی تھا
شمیم فاروقی
No comments:
Post a Comment