Monday 26 December 2016

لوگوں کا کیا قصور کہ نادان میں ہی تھا

لوگوں کا کیا قصور کہ نادان میں ہی تھا
اپنی حماقتوں سے پریشان میں ہی تھا
مجبور تھا، وہ حوصلہ کس پر نکالتا
اس کیلئے تو شہر میں آسان میں ہی تھا
میرا ہی خوف اس کو برابر لگا رہا 
یہ جانتے ہوئے کہ نگہبان میں ہی تھا
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ہو گا کوئی فقیر 
کتنی عجیب بات کہ سلطان میں ہی تھا
منظر کی سمت اب کے کسی کی نظر نہ تھی
سب مجھ کو تک رہے تھے کہ حیران میں ہی تھا
پھر بھی وہ مجھ سے دور بہت دور تھا شمیؔم
حالاں کہ اس کی آخری پہچان میں ہی تھا

شمیم فاروقی

No comments:

Post a Comment