ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں
پھر بلاتی ہیں کسی کو بادبانی کشتیاں
موجِ دریا نے کہا کیا، ساحلوں سے کیا ملا
کہہ گئیں کل رات سب اپنی کہانی کشتیاں
خامشی سے ڈوبنے والے ہمیں کیا دے گئے
اِک عجب سیلاب سا دل کے نہاں خانے میں تھا
ریت، ساحل، دور تک پانی ہی پانی، کشتیاں
ایک دن ایسا بھی آیا حلقۂ گرداب میں
کسمسا کر رہ گئیں خوابوں کی دھانی کشتیاں
آج بھی اشکوں کے اس گہرے سمندر میں شمیؔم
تیرتی پھرتی ہیں یادوں کی پرانی کشتیاں
شمیم فاروقی
No comments:
Post a Comment