Monday, 26 December 2016

ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں

ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں 
پھر بلاتی ہیں کسی کو بادبانی کشتیاں
موجِ دریا نے کہا کیا، ساحلوں سے کیا ملا
کہہ گئیں کل رات سب اپنی کہانی کشتیاں
خامشی سے ڈوبنے والے ہمیں کیا دے گئے
ایک انجانے سفر کی کچھ نشانی کشتیاں 
اِک عجب سیلاب سا دل کے نہاں خانے میں تھا
ریت، ساحل، دور تک پانی ہی پانی، کشتیاں
ایک دن ایسا بھی آیا حلقۂ گرداب میں
کسمسا کر رہ گئیں خوابوں کی دھانی کشتیاں
آج بھی اشکوں کے اس گہرے سمندر میں شمیؔم
تیرتی پھرتی ہیں یادوں کی پرانی کشتیاں

شمیم فاروقی

No comments:

Post a Comment