Thursday, 12 January 2017

شب بھر یہ ہم تھے اور وہ ماہ تمام تھا

شب بھر، یہ ہم تھے اور وہ ماہِ تمام تھا
دل نے جو کر دیا ہے، سمندر کا کام تھا
دریا تو اپنی موج میں جانے کہاں گیا
دل میں وہ پھول ہے جو کناروں پہ عام تھا
رنجِ سفر میں ایک سے تھے، دشت و آبجو
رستے میں جو بھی تھا، وہ دعا کا مقام تھا
عادؔل، اِس ایک چاکِ دلِ مضطرب سے قبل
کارِ رفوگری میں ہمارا بھی نام تھا

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment