شب بھر، یہ ہم تھے اور وہ ماہِ تمام تھا
دل نے جو کر دیا ہے، سمندر کا کام تھا
دریا تو اپنی موج میں جانے کہاں گیا
دل میں وہ پھول ہے جو کناروں پہ عام تھا
رنجِ سفر میں ایک سے تھے، دشت و آبجو
عادؔل، اِس ایک چاکِ دلِ مضطرب سے قبل
کارِ رفوگری میں ہمارا بھی نام تھا
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment