چپ چاپ سلگتا ہے دِیا، تم بھی تو دیکھو
کس درد کو کہتے ہیں وفا، تم بھی تو دیکھو
مہتاب بکف رات کسے ڈھونڈ رہی ہے
کچھ دور چلو، آؤ ذرا، تم بھی تو دیکھو
کس طرح کناروں کو ہے سینے سے لگائے
کچھ رات گئے روز جو آتی ہے فضا سے
کس ڈوبتے دل کی ہے صدا، تم بھی تو دیکھو
ہر ہنستے ہوئے پھول سے رشتہ ہے خزاں کا
ہر دل میں ہے اک زخم چھپا، تم بھی تو دیکھو
کیوں آنے لگیں سانس میں گہرائیاں، سوچو
کیوں ٹوٹ چلے بندِ قبا، تم بھی تو دیکھو
یادوں کے سمن زار سے آئی ہوئی خوشبو
دامن میں چھپا لائی ہے کیا، تم بھی تو دیکھو
بشر نواز
No comments:
Post a Comment