ہونٹوں پہ پیاس، آنکھ میں پانی لیے پھروں
میں دشت میں کسی کی نشانی لیے پھروں
اس کا پتہ کوئی بھی بتاتا نہیں مجھے
تصویر اس کی برسوں پرانی لیے پھروں
مجھ کو شدید دھوپ کا احساس ہی نہیں
میں اپنے ساتھ شام سہانی لیے پھروں
مجھ سے اگر سنے تو زمانہ بھڑک اٹھے
سینے میں ایک ایسی کہانی لیے پھروں
اس بات کو سمجھنے کا موقع نہیں ملا
جس بات کے بہت سے معانی لیے پھروں
دنیا تجھے میں دیکھ چکا ہوں قریب سے
یونہی نہیں میں شعلہ بیانی لیے پھروں
محبوب عمر کٹ گئی لیکن میں آج بھی
تیری گلی میں اپنی جوانی لیے پھروں
خالد محبوب
No comments:
Post a Comment